سابق سوویت یونین کی سامراجی سرخ فوج کے خلاف افغان حریت پسندوں کی تاریخ رہتی دنیا تک باقی رئیگی،افغان نوجوانوں ،بوڑھوں،بچوں اور خواتین نے آزادی
کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کیا،افغانستان کی جہادی تاریخ میں ایک ایک فرد ایسا ہے جن کی قربانیوں پر کتابیں لکھی جاسکتی ہے، روس کے خلاف جہاد ہو یااسلامی نظام کے لئے مزاحمتی تحریک ہو یاپھر امریکی استعمار کے خلاف جہاد مقدس ہو۔ افغانوں نے کبھی بھی اپنے دشمن کو سکھ کاسانس لینے نہیں دیا،اور اس جہادی دھرتی کو ایسے ایسے قائدین ملے جنہوں نے کبھی بھی استعمار اور سامراج کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کیا،انہی جہادی قائدین میں ایک نام ایسا بھی ہے جو افغانستان کے افق پر قیامت تک جگمگاتا رئیگا،جس نے سب سے پہلے امریکیوں اور اس کے اتحادیوں کوشاہی کوٹ کے تاریخی محاذ پرایسا سبق سکھایا جس نے نہ صرف امریکی طلسم کو توڑا بلکہ بعد میں آنے والی ہر کامیابی کی بنیاد یہ جنگ ٹہری،یہ تذکرہ قائد ابن قائد مجاہد ابن مجاہد ابن امام ،ملا سیف الرحمن منصور کا ہے جس نے اپنے خون سے اس چمن (افغانستان)کی ایسی آبیاری کی جس سے آج پوری فضاءمہک رہی ہے۔جب "بی باون" طیاروں کے خوف سے لوگ اپنے ایمان کا سودا کررہے تھے اس وقت گردیز میں یہ نوجوان امریکی شیطانوں سے جنگ کے لئے مجاہدین سے شھادت پر بیعت لے رہا تھا
اللہ اللہ کیا منظر تھا ۔۔۔۔۔
یہ دس سال قبل کی بات ہے جب امریکی درندھے اپنے تمام تر دجالی ٹیکنالوجی کے ساتھ افغانستان پر بلاجواز حملہ آور ہوئے،ہر طرف افراتفری پھیلا دی گئی تھی مقامی ایجنٹوں نے لوگوں کو امریکا سے اتنا مرعوب کردیا تھا کہ کمزور ایمان والوں نے امریکا کو ہی سب کچھ سمجھ لیا تھا۔۔۔۔۔۔مگر سیف الرحمن ایسا نوجوان تک جس نے سامراج کے سارے رعب اور دبدے کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا۔۔ ۔۔۔ اور یہ کہتا پھرتا رہا کہ جسے جنت جانا ہے وہ میرے ساتھ شاہی کوٹ چلے۔۔۔۔یہ ویہی شاہی کوٹ ہے جہاں سیف الرحمن کے والد ماجد اور روس کے خلاف افغان کے عظیم اور حقیقی ہیرو مولوی نصراللہ منصور کا جہادی مرکز تھا۔ یہ ویہی شاہی کوٹ ہے جہاں خود سیف الرحمن روس کے خلاف موچہ زن ہوا تھا ۔۔۔ اور آج امریکی استعمار کے خلاف سیف الرحمن نے اپنے ساتھیوں کو اس مقام کی طرف بلایا۔
شاہی کوٹ کی جنگ ایک تاریخ ہے،ولولوں،جذبوں شہادتوں اور قربانیوں کی عظیم تاریخ ۔۔۔۔اور اس میں حصہ لینے والا ہر مجاہد امارت اسلامیہ کی نشاة ثانیہ کا معمار تھا۔
معرکہ شاہی کوٹ کی داستان بہت طویل ہے اہل مغرب اب تک اس جنگ کے مختلف پہلووں پر دو درجن سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں جب کہ سینکڑوں کی تعداد میں اخباری کالم اور رپورٹیں دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں ۔اس جنگ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک اس جنگ پر تحقیق کی جارہی ہے اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کس طرح مٹھی بھر مجاہدین نے امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کو دندان شکن جواب دیا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جس وقت شاہی کوٹ کی جنگ جاری تھی اور امریکیوں کے تمام اندازے غلط ثابت ہورہے تھے اور مجاہدین نے ان کو اپنے حصار میں لے لیا ہوا تھا اُس وقت امریکی ٹیلی ویژنC C Nپر آپریشن اناکنڈا کے کمانڈر انچیف لیفٹنٹ جنرل Franklin L. Hagenbeck نمودار ہوئے اور جب ان سے پوچھا گیا کہ امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کی پیش قدمی کیوں روک گئی تو انہوں نے شکست خوردہ لہجہ میں انتہائی مایوسی کے ساتھ جواب دیا " ہمیں اس طرح سخت جواب کا اندازہ نہیں تھا۔۔۔ہمیں دشمن کی حکمت عملی سمجھنے میں کچھ وقت لگے گا۔ ایک فوجی جنرل کا یہ بیان اس کی شکست وریخت کا مظہر ہے ۔
دوسری جانب مجایدین جن کی تعداد 200 سے زائد نہیں تھے نے دنیا کے بارہ ممالک کی فوجیوں کا اس مردانگی سے مقابلہ کیا جس کی نظیر تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔
(شاہی کوٹ کی جنگ پر تفصیل کے لئے قارئین کو کچھ اور انتظار کرنا پڑے گا اوران شاءاللہ بہت جلد اس پرتفصیلی کتاب سامنے آئیگی)
سیف الرحمن منصور کی جہادی زندگی میں معرکہ شاہی کوٹ ہی صرف ایک معرکہ نہیں بلکہ کیمونسٹ فوجوں کے خلاف لڑنے سے لیکر امارت اسلامیہ کے قیام اور اس کے بعد امریکیوں کے خلاف جہاد میں گذرنے والا ہردن ایک تاریخی دن رہا انہوں نے جہادی میدان میں ایسے ایسے کارنامے سرانجام دئے جو مجاہدین کے لئے مشعل راہ ہیں۔
سیف الرحمن منصور اعلی اخلاق اور بہترین منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی متواضع انسان بھی تھے۔
1997 کے اوائل میں چہار آسیاب کے مقام پر میری پہلی ملاقات سیف الرحمن منصور سے ہوئی تب انہوں نے کم عمری کی بنیاد پر مجھے جہاد سے روکا اور کہا کہ تم واپس جاو ایک دو سال بعد جہاد میں آنامیرے چہرے پر نارضگی کے آثار دیکھ کر فرمایا ابھی تم تعلیم حاصل کرو انہوں نے انتہائی شفقت کا معاملہ فرمایا اور واپسی کے خرچے کے لئے کچھ پیسے بھی دئے اور ساتھ ساتھ مجھ سے یہ وعدہ بھی لیا،کہ سیدھا مدرسے جانا کئی اور نہیں، میں نے وعدہ کیا کہ سیدھا مدرسے جاوں گا جب میں واپس قندھار پہنچا تو مجھے میرے مدرسے کے کچھ اور طلبہ ملے وہ ہرات کی طرف جارہے تھے میں ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا اور ملاسیف الرحمن سے کیا ہوا وعدہ بھول گیا ابھی گاڑی کچھ ہی دور چلی تھی کہ سامنے سے آنے والی تیز رفتار گاڑی سے بچنے کے چکر میں ہماری گاڑی الٹ گئی،گاڑی میں بیٹھے کسی بھی طالب کو کچھ نہیں ہوا سوائے میرے ،میری بائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ،تب مجھے کمانڈر صاحب سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا۔۔ میں نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ واپس ہوجاؤں۔سات ماہ بعد جب میری دوبارہ ملاقات ہوئی تب میں نے اس واقعے کا ذکر ان سے کیا ۔۔تو ہنسنے لگے اور فرمایا مجھے اندازہ تھا کہ تم سیدھا گھر نہیں جاوگئے۔
آج اس عظیم انسان کو شہید ہوئے دس برس بیت چکے ہیں لیکن دل اس بات کو ماننے کو تیار نہیں،وہ آج بھی زندہ ہے کیونکہ شہید مرتا نہیں۔۔
وہی جوان ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا۔۔۔ شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری
Columnist, Analyst, Consultant.
Owner Pakistan's Largest Media Group,
Over 25,000 Members and Expanding,
Posts: Pakistan-Media@yahoogroups.com
Editor Commerce, Pakistan Observer,
Ali Akbar House, G-8 Markaz, Islamabad.
Phone. 051-2852027/8. Fax 051-2262258.
Tariq Khattak, Islamabad, Pakistan.
GSM = 0300-9599007 and 0333-9599007
Email: Tariqgulkhattak@gmail.com
Thanks for participating.
Kindly suggest improvements.
Please let us know:
I. If you want to receive individual emails
II. Receive one mail with all activity in it
III. Do not want to receive any mail at all
REQUESTS:
1) Please directly contact sender for personal/individual correspondence.
2) Try to discuss issues that will catch attention of many readers.
3) Please avoid sending messages in any language other than English
4) Avoid sending messages addressed to many recipients.
5) Do not send messages aimed at personal publicity.
6) Please do not send personal/other links unless necessary.
7) The Group is not obliged to publish printed news,
very short/long comments and objectionable material.
8) Every mail cannot be published; it will overload Mailboxes
of our valued members.
9) Try to Disagree Without Being Disagreeable, Unsympathetic and/or Unpleasant.
x==x==x==x==x==x
Please note that,
It is a common platform for journalists and all others who are interested in knowing about the issues that are sometimes not reported. This group favours philosophy of progress, reform and the protection of civil liberties. Please share and educate others. The owners and managers of this site do not necessarily agree with any of the information. It is an open forum; everyone is allowed to share anything. Mails sent by members and non-members are subject to approval. However, we are not responsible in any way for the contents of mails / opinion sent by members. We do not guarantee that the information will be completely accurate. (Nor can print and electronic media). If you find content on this site which you feel is inappropriate or inaccurate, incomplete, or useless you are most welcome to report it or contradict it.
Thanks a lot.