شام میں بڑے بڑے علماء اور محدثین پیدا ہوئے۔ امام نووی، امام ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن عساکر، حافظ ابن حجر عسقلانی، المقدسی، یاقوت حموی، الحلبی اور الطرطوسی رحم اللہ اجمعین ان میں سے چند نام ہیں۔ یہیں دمشق میں خلیفہ عبدالملک بن مروان کے خلف الرشید خلیفہ ولید نے حکمرانی کی جن کے دس سالہ دور (85ھ تا 95ھ) میں اسلامی سلطنت کی حدود چین سے فرانس تک پھیل گئیں۔ یہیں مجاہدین اسلام سلطان نور الدین زنگی اور سلط
ان صلاح الدین ایوبی نے حکومت کی۔ یہیں شہر حمص میں فاتح اسلام سیدنا خالدؓ بن ولید، عیاضؓ بن غنم، عبیداللہ بن عمرؓ، سفینہ مولیٰ رسول، سیدنا ابودردائؓ اور سیدنا ابوذر غفاریؓ دفن ہیں۔ یہیں انطاکیہ ہے جہاں قیصر روم ہرقل نے شکست یرموک کے بعد عالم یاس میں کہا تھا: اے سوریہ (شام)! تجھے الوداع کہنے والے کا سلام، جسے امید نہیں کہ وہ کبھی لوٹ کر تیرے ہاں آئے گا''۔
آج وہ شام ایک ملحد گروہ کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بنا ہوا ہے جنہیں نصیری کہا جاتا ہے۔ فرانسیسی سامراج نے اپنے پچیس تیس سالہ دور حکومت میں نصیری اقلیت کو علوی کا نام دے کر انہیں فوج، پولیس اور انتظامیہ میں بھرتی کیا۔ مائیکل عفلق عیسائی نے بعث پارٹی (حزب العبث) قائم کی تو نصیری اس میں بھی پیش پیش رہے۔ حزب البعث نے شام اور عراق میں پنجے گاڑ کر مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کیا اور ان دونوں ملکوں میں 1963ء میں فوجی انقلاب برپا کر کے اقتدار حاصل کر لیا۔ چنانچہ 1970ء میں علوی وزیر دفاع حافظ الاسد نے بعثی صدر نور الدین العطاشی اور وزیراعظم یوسف زین کا تختہ الٹ کر خود اقتدار سنبھال لیا۔ حافظ الاسد کے تیس سالہ دورمیں جبر و ظلم کارفرما رہا۔ حکمران حزب البعث واحد سیاسی جماعت تھی چنانچہ حافظ الاسد 99.9 فیصد کی اکثریت سے صدر منتخب ہوتا رہا۔ ایران عراق جنگ (1980-88ئ) میں اس نے نصیری شیعہ ہونے کی بناء پر ایران کا ساتھ دیا۔ فروری 1982ء میں شام کے شہر حماۃ کے مسلمان، نصیری مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو حافظ الاسد کی فوج نے وہاں ٹینکوں سے گولہ باری کی اور خون کی ندیاں بہا دیں حتیٰ کہ جامع مسجد حماۃ شہداء کے خون سے رنگی گئی۔ شہدائے حماۃ کی تعداد کا اندازہ 20 تا 45 ہزار ہے۔ حافظ الاسد کا بھائی رفعت الاسد انٹیلی جنس کا سربراہ تھا جو اہل سنت مسلمانوں پر ظلم ڈھانے میں بیباک تھا۔ آمر حافظ الاسد جون 2000ء میں مر گیا تو اس کے بیٹے بشار الاسد نے پیرس سے آ کر حکومت سنبھالی۔ بیٹا بھی باپ کے راستے پر چل رہا ہے۔ فروری 2011ء میں مصر میں کامیاب انقلاب برپا ہوا اور حسنی مبارک کا تختِ اقتدار الٹ گیا اور اس سے ایک ماہ پہلے تونس کا جلاد زین العابدین بن علی رخصت ہوا تو مارچ میں شام کے عوام بھی بشار الاسد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ نصیری حکومت نے پرامن مظاہرین پر ٹینک چڑھا دیئے۔ تحریک آزادی کا آغاز درعا سے ہوا جہاں سکول کے بچوں نے سکول کی دیوار پر حکومت کے خلاف نعرے لکھ دیئے تھے۔ بچوں کو گرفتار کر کے بندی خانوں میں ان کے ناخن اکھاڑے گئے، انہیں جلتے سگریٹوں سے داغا گیا اور قتل کی دھمکی دیتے ہوئے وحشیانہ طور پر پیٹا گیا۔
''شامی عوام انسانیت سے عاری ایک مجرم (بشار الاسد) اور اخلاق سے عاری گروہ (علویوں) کے ہاتھوں سوا سال سے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں، سرکاری اہلکار ان کے خلاف تعذیب و تشدد کے تمام ہتھیار استعمال کر رہے ہیں جن میں خواتین کی آبرو ریزی، بچوں کا قتل، ہاتھ پائوں کاٹنا، زندہ جلا دینا یا سب کے سامنے زندہ دفن کر دینا، آنکھیں نکال دینا یا آری سے کان کاٹ دینا ایسی ہولناک کارروائیاں ہیں جن کے متعلق دنیا والوں نے نہیں سنا ہو گا۔ انہوں نے مساجد مسمار کی ہیں، قرآن مجید جلائے ہیں، گھروں کو لوٹا ہے اور اہل خانہ سمیت گھر جلائے ہیں۔ تیل چھڑک کر آگ لگائی ہے اور بھاری اور ہلکے آتشیں اسلحہ سمیت حریت پسندوں کے خلاف ہر نوع کا اسلحہ استعمال کیا ہے۔ عربوں اور اقوام متحدہ کی امن کوششوں کے باوجود وہ شخص اپنے جرائم سے باز نہیں آیا اور ان کے ارتکاب میں روسی، ایرانی، عراقی، لبنانی (حزب شیطان) اس کی مدد کر رہے ہیں
شام میں اب تک تقریبا 20000 سے زائد شہری شہید کر دیئے گئے ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں معصوم بچے اور اتنی ہی خواتین شامل ہیں''۔
ہزاروں شہری اپنی جانیں بچانے کے لئے ترکی، لبنان اور اردن میں پناہ گزین ہوئے ہیں۔ حکومت اپنے مسلح مخالفین اور عام شہریوں کے خلاف مارٹر توپیں، طیارہ شکن توپیں، ٹینک اور میزائل سارے ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ عوام کے خلاف اس طرح فوج استعمال کی جا رہی ہے جیسے ملک پر دشمن حملہ آور ہو گیا ہو
Tariq Khattak.
0300-9599007 and 0333-9599007
Tariqgulkhattak@gmail.com
0 comments:
Post a Comment
Gujranwalafun@Aol.com
Gujranwala@windiowslive.com