سی این جی کے معاملہ پر قوم کو گمراہ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے
توانائی کی وزارت نااہلی کا اعتراف، بین الاقوامی تیل مافیا کے مفادات کی نگہبانی بند کرے
15فیصد گیس کس سیاستدان کے بجلی گھروں کومل رہی ہے، کھاد کے کارخانہ میں کس کی شراکت
ایل این جی کی درامد کے منصوبہ کا کیا بنا، کمپنیاں کیوں دیوالیہ ، ذمہ دار عوام کیوں
پنجاب 5فیصد گیس پیدا 47 فیصد استعمال کرتا ہے تو گناہ نہیں،منافع اور ٹیکس مرکزی حکومت لیتی ہے
صوبائیت کا پرچار ،الزامات کی سیاست،ذاتی مفادات کے حصول سے بڑھ کر عملی اقدات کئے جائیں
اسلام آباد( جنوری 17) پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ سی این جی کے معاملہ پر ملک و قوم کو گمراہ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔اس وقت سی این جی کی کھپت پیداوار کے آٹھ فیصد سے زیادہ نہیں۔سی این جی بند کرنے سے سارا فائدہ ایک ٹولے کو ہوگا جبکہ کوئی اور ایندھن کی درامد سے ملک کا بھاری زرمبادلہ ضائع ہو گا۔اصل معاملہ اربوں روپے کے مزیدگھپلوں کا ہے جس کے لئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ملک اور گیس سسٹم پر سی این جی نہیں بلکہ کرپٹ سیاستدان بوجھ ہیں پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کی وزارت اپنی نا اہلی کا اعتراف کرے اور بین الاقوامی تیل مافیا کے مزموم مفادات کی نگہبانی بند کرے۔ ر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے مطالبہ کیا کہ عوام کو بتایا جائے کہ روزانہ چھ سوملین کیوبک فٹ گیس جو پیداوارکا پندرہ فیصد ہے کس سیاستدان کے دو بجلی گھروں کو بلا تعطل فراہم کی جا رہی ہے جو سی این جی کی کل کھپت سے دگنی ہے۔دیگربجلی گھروں کو گیس کی فراہمی میں میرٹ کی دھجیاں کس کے حکم پر بکھیری جا رہی ہیں۔پاکستان کے سب سے جدید فرٹیلائیزر پلانٹ میں کس کی شراکت ہے اس شعبہ کے باقی ماندہ یونٹوں کوکون منظم انداز میں تباہ کر رہاہے۔ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا کہ گیس کم تھی تو کھاد کا کارخانے بنانے کی اجازت ہی کیوں دی گئی۔ ایل این جی کی درامد کے منصوبہ کا کیا ہوا اور اس سلسلہ میں کام کرنے والی کمپنیاں کیوں اور کیسے دیوالیہ ہو گئیں۔ان کمپنیوں کے مالکان سے کس کی دوستی تھی اور تمام بوجھ عوام پر کیسے منتقل کیا گیا۔ توانائی کے شعبہ کے ارباب اختیار با اثرتیل کمپنیوں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اور انھیں کمزور گیس سیکٹر کی خدا واسطے کا بیر ہے۔ ڈاکٹر مغل نے کہا کہ پنجاب اگرپانچ فیصد گیس پیدا اور سینتالیس فیصد استعمال کرتا ہے تو اسکا کوئی قصور نہیں۔گیس کی آمدنی اور ٹیکس بھی مرکزی حکومت کو ہی ملتے ہیں۔ پنجاب سارے پاکستان کو گندم، چاول، سبزیاں اور پھل کھلاتا ہے اور اسکی کپاس ملک کی سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والی صنعت ٹیکسٹائل کو خام مال فراہم کرتی ہے جس سے سارے ملک کو فائدہ ہوتا ہے مگر اسکا زکر نہیں کیا جاتا۔ مرکزی حکومت ہر معاملہ میں صوبائیت کو ہوا دینے کی خبرناک پالیسی ترک کرے اور عوام کو جمہوریت کی مزید سزا نہ دی جائے۔الزامات کی سیاست، اقرباء پروری، زاتی مفادات کے حصول ،باتوں اور دعووں سے آگے بڑھ کر عملی اقدات کئے جائیں۔
توانائی کی وزارت نااہلی کا اعتراف، بین الاقوامی تیل مافیا کے مفادات کی نگہبانی بند کرے
15فیصد گیس کس سیاستدان کے بجلی گھروں کومل رہی ہے، کھاد کے کارخانہ میں کس کی شراکت
ایل این جی کی درامد کے منصوبہ کا کیا بنا، کمپنیاں کیوں دیوالیہ ، ذمہ دار عوام کیوں
پنجاب 5فیصد گیس پیدا 47 فیصد استعمال کرتا ہے تو گناہ نہیں،منافع اور ٹیکس مرکزی حکومت لیتی ہے
صوبائیت کا پرچار ،الزامات کی سیاست،ذاتی مفادات کے حصول سے بڑھ کر عملی اقدات کئے جائیں
اسلام آباد( جنوری 17) پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ سی این جی کے معاملہ پر ملک و قوم کو گمراہ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔اس وقت سی این جی کی کھپت پیداوار کے آٹھ فیصد سے زیادہ نہیں۔سی این جی بند کرنے سے سارا فائدہ ایک ٹولے کو ہوگا جبکہ کوئی اور ایندھن کی درامد سے ملک کا بھاری زرمبادلہ ضائع ہو گا۔اصل معاملہ اربوں روپے کے مزیدگھپلوں کا ہے جس کے لئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ملک اور گیس سسٹم پر سی این جی نہیں بلکہ کرپٹ سیاستدان بوجھ ہیں پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کی وزارت اپنی نا اہلی کا اعتراف کرے اور بین الاقوامی تیل مافیا کے مزموم مفادات کی نگہبانی بند کرے۔ ر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے مطالبہ کیا کہ عوام کو بتایا جائے کہ روزانہ چھ سوملین کیوبک فٹ گیس جو پیداوارکا پندرہ فیصد ہے کس سیاستدان کے دو بجلی گھروں کو بلا تعطل فراہم کی جا رہی ہے جو سی این جی کی کل کھپت سے دگنی ہے۔دیگربجلی گھروں کو گیس کی فراہمی میں میرٹ کی دھجیاں کس کے حکم پر بکھیری جا رہی ہیں۔پاکستان کے سب سے جدید فرٹیلائیزر پلانٹ میں کس کی شراکت ہے اس شعبہ کے باقی ماندہ یونٹوں کوکون منظم انداز میں تباہ کر رہاہے۔ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا کہ گیس کم تھی تو کھاد کا کارخانے بنانے کی اجازت ہی کیوں دی گئی۔ ایل این جی کی درامد کے منصوبہ کا کیا ہوا اور اس سلسلہ میں کام کرنے والی کمپنیاں کیوں اور کیسے دیوالیہ ہو گئیں۔ان کمپنیوں کے مالکان سے کس کی دوستی تھی اور تمام بوجھ عوام پر کیسے منتقل کیا گیا۔ توانائی کے شعبہ کے ارباب اختیار با اثرتیل کمپنیوں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اور انھیں کمزور گیس سیکٹر کی خدا واسطے کا بیر ہے۔ ڈاکٹر مغل نے کہا کہ پنجاب اگرپانچ فیصد گیس پیدا اور سینتالیس فیصد استعمال کرتا ہے تو اسکا کوئی قصور نہیں۔گیس کی آمدنی اور ٹیکس بھی مرکزی حکومت کو ہی ملتے ہیں۔ پنجاب سارے پاکستان کو گندم، چاول، سبزیاں اور پھل کھلاتا ہے اور اسکی کپاس ملک کی سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والی صنعت ٹیکسٹائل کو خام مال فراہم کرتی ہے جس سے سارے ملک کو فائدہ ہوتا ہے مگر اسکا زکر نہیں کیا جاتا۔ مرکزی حکومت ہر معاملہ میں صوبائیت کو ہوا دینے کی خبرناک پالیسی ترک کرے اور عوام کو جمہوریت کی مزید سزا نہ دی جائے۔الزامات کی سیاست، اقرباء پروری، زاتی مفادات کے حصول ،باتوں اور دعووں سے آگے بڑھ کر عملی اقدات کئے جائیں۔
_
__,_._,___
1 comments:
well done dr sab
Post a Comment
Gujranwalafun@Aol.com
Gujranwala@windiowslive.com